گوگل کی تاریخاور ہمارے نوجوان
گوگل
سرچ انجن نے انیس سو چھیانوے میں کام کرنا شروع کیا۔ اس تحریر کو پڑھنے
والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات سے واقف ہوگی کہ اس سے پہلے معمولی سی
بات کو جاننے کے لئے لائبریریوں کے چکر لگانے پڑتے تھے۔ اور اگر وہاں
متعلقہ مواد موجود نہ ہو تو کسی بھی سنی سنائ بات سے آگے بات بڑھ نہ پاتی
تھی۔ اس نئ ٹیکنیک نے دنیا میں معلومات کی ترسیل کا انداز ہی بدل دیا۔ اور
آج دنیا کے کسی حصے میں کیا ہو رہا ہے اسکا علم صرف چند سیکنڈز میں ہمارے
پاس ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح سے یہ علم عام انسان کی فلاح کے لئےکام آرہا ہے
وہاں شر پسند بھی اسکے مناسب استعمال کے طریقے ڈھونڈھتے رہتے ہیں یوں طبل
جنگ اب میدان جنگ میں نہیں بلکہ ایک ایسے مجازی میدان جنگ میں بھی ہو سکتا
ہے جہاں ہمارا حریف دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اسکی
سواری کے ماہر نہیں تو یہ ممکن ہے کہ ہم آگے بڑھنے سے پیشتر خود ہی ناکام
ہو جائیں۔ اور نتیجے میں میدان بلا مقابلہ ہمارے حریف کے ہاتھ رہے۔
لیکن
نہیں ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہم اس ٹیکنیک کو استعمال کرنے سے انکار کر دیں
اور نتیجے میں رضاکارانہ طور پہ یہ میدان اپنے حریف کے حوالے کر کے خود
بغلیں بجائیں۔
ٹیکنالوجی
کی اس ترقی سے ملکوں کے سیاسی معاملات میں دوسری طاقتوں کے نفوذ و اثر کا
امکان زیادہ بڑھ گیا۔ اور ایسا بھی ہوا کہ مختلف ممالک میں انکی دسترس پہ
پابندی لگائ گئ۔ جیسے فیس بک پہ پابندی۔ اب تک پانچ ممالک اس پہ پابندی لگا
چکے ہیں۔ ان میں چین، ایران، شام، ویتنام اور پاکستان شامل ہیں۔ پاکستان
کے علاوہ باقی تمام ممالک نے مختلف اوقات میں اپنے اندرونی معاملات میں
بیرونی عناصر کے اثر کو کم کرنے کے لئے یہ انتہائ قدم اٹھایا۔
چین
وہ واحد ملک ہے جہاں سن دو ہزارنو میں لگائ جانیوالی فیس بک پہ پابندی آج
بھی موجود ہے۔ چین کی آبادی اس وقت سوا ارب کے قریب ہے۔ اس پابندی سے چین
میں ایک عام انٹر نیٹ صارف کے متائثر نہ ہونے کی وجوہات میں جو چیزیں اہم
ہیں وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی خود انحصاری ہے۔ وہ انٹر
نیٹ کے سلسلے میں اپنا انفرا اسٹرکچر رکھتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ چین میں
چینی زبان کی ترویج ہے یوں بیرونی ذرائع جو کہ زیادہ تر انگریزی میں ہوتے
ہیں وہاں زیادہ پذیرائ حاصل نہیں کر پائے۔ اس سب کے باوجود آزاد ذرائع کہتے
ہیں کہ پروکسی سرور کے ذریعے فیس بک تک رسائ حاصل کرنے والوں کی ایک بڑی
تعداد چین میں اب بھی فیس بک سے مستفید ہو رہی ہے۔ اور یوں فیس بک کو اس
سلسلے میں کوئ بہت زیادہ نقصان نہیں ہے۔
دنیا
بھر میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت انٹر نیٹ استعمال کر ہی ہے۔ اگر
ہم اپنے ملک میں ہی دیکھیں تو اس وقت اسے استعمال کرنے والوں میں نوجوان
ہی زیادہ شامل ہیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے مختلف
حصوں کو نوجوانوں نے ہی ترتیب دیا۔ یوں ثابت ہو گیا کہ ہر عہد اپنے
نوجوانوں کا ہوتا ہے۔
مارک
ایلیئٹ زکربرگ، نیویارک میں انیس سو چھیاسی میں پیدا ہوا۔ نسلاً یہودی اور
مذہباً دہریہ ہے۔ فیس بک کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ شاید اسی وجہ سے مسلمان
فیس بک کو یہودیوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمارے مایہ
ناز کرکٹر عمران خان نے ایک یہودی النسل خاتون کو مسلمان کر کے شادی کی۔
اس طرح یہودیوں سے بننے والے تعلقات کے نتیجے میں انکے کینسر کے لئے قائم
ہسپتال کو کافی ڈونیشنز ان ذرائع سے ملیں۔ لیکن اسے یہودیوں کی سازش نہیں
سمجھا جاتا۔ اس وقت مارک کی ذاتی جائداد کی مالیت چار ارب امریکی ڈالر ہے۔
اسکے دیگر ساتھیوں میں شامل ہیں، ایڈوآرڈو سیورن ، ڈسٹن ماسکووٹس، کرس
ہیوز، یہ سب لوگ اسّی کی دھائ میں پیدا ہونے نوجوان ہیں۔
انیس
سو اٹھتر میں پیدا ہونے والا اسٹیون شی چن، آٹھ سال کی عمر میں تائیوان سے
ہجرت کر کے امریکہ پہنچا۔ پےپل میں دوران ملازمت اسکی ملاقات چیڈ ہرلے
اور جاوید کریم سے ہوئ اور یوں سن ۲۰۰۵ میں یو ٹیوب وجود میں آئ۔
چیڈ
ہرلے، امریکہ میں انیس سو چھتّر میں پیدا ہوا۔ جاوید کریم، انیس انّاسی
میں جرمنی میں پیدا ہوا۔ اسکے والد کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا جو جرمنی میں
ایک تحقیقداں کے طور پہ کام کر رہا تھے۔ جبکہ اسکی ماں ایک جرمن سائینسداں
تھی۔
جب
یوٹیوب کو گوگل کے حوالے کیا گیا تو اسٹیون کو تین سو پچاس ملین امریکی
ڈالر مالیت کے شیئرز ملے۔ چیڈ ہرلے کو تین سو چھبیس ملین امریکی ڈالر اور
جاوید کریم کے حصے میں چونسٹھ ملین امریکی ڈالر کی مالیت کے شیئرز آئے۔
گوگل
ویب بیسڈ سرچ انجن کی بنیاد دو پی ایچ ڈی کرنے والے اسٹوڈنٹس نے انیس سو
چھیانوے میں رکھی۔ یہ انکا پی ایچ ڈی کا پروجیکٹ تھا۔ جسکا مقصد ایک
یونیورسل ڈیجیٹل لائبریری کا قیام تھا۔ یہ دو طالب علم تھے لارنس اور سرجے۔
لارنس لیری پیج انیس سو تہتر میں امریکہ میں پیدا ہوا۔ اسکا ساتھی سرجے
برن بھی انیس سو تہتر میں، روس میں پیدا ہوا اور چھ سال کی عمر میں امریکہ
ہجرت کر گیا۔ فوربس کے مطابق وہ دونوں اس وقت دنیا کے چوبیسویں امیرترین
اشخاص ہیں۔ اور انکی ذاتی دولت کا شمار ساڑھے سترہ ارب امریکی ڈالر لگایا
جاتا ہے۔ یہ دولت انکے پاس اپنے پروجیکٹ میں کامیاب ہونے کی صورت میں آئ
جسکا نتیجہ آج ہم گوگل کی صورت دیکھتے ہیں۔
ان
نوجوانوں نے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو بہترین طور پہ استعمال کیا، دولت
کمائ بلکہ آج کی دنیا میں انسانی ترقی اور تاریخ کا رخ اور رفتار موڑ دی۔
یہ وہ نوجوان ہیں جنہیں یہ قوت حاصل ہے کہ وہ آجکی دنیا پہ اثر انداز ہو
سکیں۔
اب
ہم اپنے یہاں ستر اور اسّی کی دھائ میں پیدا ہونے والے لوگوں کو دیکھتے
ہیں ۔ کیا واقعی انہیں ان نوجوانوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیا گیا۔
جنکا تذکرہ میں نے اس طویل تحریر میں کیا ہے۔ یہ جو موجودہ رویہ ہمیں اپنے
نوجوانوں کا نظر آتا ہے۔ یہ کسی احساس محرومی کی وجہ سے ہے، احساس ذمہ داری
سے بھاگنے کی وجہ سے ہے یا مقابلے کی فضا میں فرار حاصل کرنے کی وجہ سے
ہے۔