Thursday 6 September 2012

صدر آصف علی زرداری اور اُن کا دورِ صدارت
                    تحریر……سحرصدیقی
صدر آصف علی زرداری کو ایوان صدر میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے 4سال کا عرصہ مکمل ہوگیا ہے۔انہوں نے یہ اعزاز عوام کے منتخب صدر کی حیثیت سے اس وقت حاصل کیا جب وطنِ عزیز کو داخلی اور بیرونی سطح پر انتہائی نامساعداور پرآزمائش مراحل کا سامنا تھا۔پرویزمشرف کی آمریت کے اثرات اپنے عروج پر تھے۔ فی الجملہ کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان عالمی برادری میں تنہائی کا شکار تھا جبکہ قومی سطح پر اس کو دہشت گردی ،بجلی کے بحران،مہنگائی،بیروزگاری اور سیاسی کشیدگی نے اپنی گرفت میں جکڑ رکھاتھا۔27 دسمبر2007ء کو وطن عزیز کی سب سے زیادہ مقبول عوامی سیاست دان محترمہ بینظیر بھٹو کی بے وقت اور المناک شہادت کے بعد جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں،آصف علی زرداری کو ان کا نہ صرف ہراعتبار سے ادراک تھا بلکہ وہ ان تبدیلیوں کے نتائج واثرات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ محترمہ شہیدکے شریک حیات ہونے کی حیثیت سے وہ محترمہ کے سیاسی نظریات اور فلسفے سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ وہ اس کو عملی اور اخلاقی طور پر عوام کی فلاح وبہبود اور قومی مفادات کو یقینی بنانے کے لیے بروئے کار لانے کاایک واضح ویژن بھی رکھتے تھے۔یہی سبب ہے کہ جب محترمہ شہید کا جسدخاکی تدفین کے لئے گڑھی خدابخش لایاگیا تو وہاں موجود بعض جذباتی سندھی نوجوانوں نے ایسے نعرے بلند کیے جو پاکستان کی سلامتی اور وفاق کے خلاف تھے۔یہی وہ نازک مرحلہ تھا جب غم واندوہ میں ڈوبے ہوئے آصف علی زرداری نے ”پاکستان کھپے“کا نعرہ مستانہ بلند کیا جو اب قوم پرستی اور وطن دوستی کا استعارہ بن چکا ہے۔
انہوں نے حقیقی معنوں میں اپنے غم کو اپنی طاقت بنایااور نہایت حوصلہ مندی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان پیپلزپارٹی کو منظم اور مربوط کیابلکہ ملک کی دیگر سیاسی اورجمہوری قوتوں کے ساتھ روابط اور تعاون کو فروغ دیا۔یہ وہ وقت تھا جب بعض ”سیاسی پنڈت“یہ عندیہ دے رہے تھے کہ 27دسمبرکے سانحہ کے بعد قوم عام انتخابات کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں اور ملکی سرحدوں کی صورت حال سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔یہ دلیل اور جواز اتنا پراسرار اور دلفریب تھا کہ پہلی نظر میں یہ نہایت برمحل اور معقول دکھائی دیتاتھا لیکن آصف علی زرداری کو بخوبی علم تھا کہ اگر اس وقت اپنے ذاتی غم کو قومی مفاد پر ترجیح دی گئی تو اس کے نتیجے میں عوام نہ صرف جمہوریت سے محروم ہوجائیں گے بلکہ وطن عزیز پر آمریت کے منحوس سائے مزید گہرے اور طویل ہوجائیں گے۔حالات اور حقائق پر گہری نگاہ رکھنے والے مبصرین اب اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور یہ واقعہ قومی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رقم ہوچکا ہے کہ آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت اور تدبر کے باعث فروری2008ء میں عام انتخابات کاانعقاد ممکن ہوا،جس میں پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک مرتبہ پھر واضح اور شاندار کامیابی حاصل کی۔
میثاق جمہوریت کو اپنی سیاسی جامعیت اور وسعت کے اعتبار سے ایک ایسی جمہوری دستاویزتسلیم کیاجاتا ہے جو وطن عزیز کے آئین کے بعد سب سے زیادہ محترم اور قابل قبول دستاویز ہے۔یہی سبب رہا کہ فروری 2008ء کے الیکشن کے بعد جب حکومت سازی کا مرحلہ درپیش ہواتو پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک وقوم کے مفادات اور جمہوری روایت ومزاج کو معتبر بنانے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کو اتحاداور تعاون کرنے کی دعوت دی۔دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ اس موقع پر آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیربھٹو شہید کے فلسفہ مفاہمت کو مشعل راہ بنایااور سیاست میں انتقام،کشیدگی،محاذآرائی اور عدم برداشت کے رجحانات کا راستہ مسدود کردیا۔اس سوچ اور عمل کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی سپیکر ڈاکٹرفہمیدہ مرزا اور وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کا انتخاب عمل میں آیا تو ساری دنیا نے بخوبی مشاہدہ کیاتو پارلیمان میں موجود عوام کے منتخب نمائندے اپنے قول وفعل سے اس حقیقت کو اُجاگر کررہے ہیں کہ اہلِ پاکستان کو جمہوریت سے عشق اور آمریت سے نفرت ہے۔وفاقی حکومت کی تشکیل ہوئی تو اس میں ان تمام سیاسی جماعتوں کی مناسب نمائندگی موجود تھی جن کو عام انتخابات میں عوام نے اپنے مینڈیٹ سے نوازا تھا اور جنہوں نے ماضی میں جمہوریت کی بحالی کے لئے نتیجہ خیز کردارادا کیاتھا۔
اتحادی حکومت کے قیام کے بعد جلد ہی یہ احساس اُجاگر ہوا کہ قومی امور میں بہتری کے امکانات روشن ہورہے ہیں۔اس ضمن میں یہ نشاندہی برمحل محسوس ہوتی ہے کہ وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب کا آغاز ہی اعلیٰ عدلیہ کے اُن جج صاحبان کی بحالی اور رہائی کے اعلان کے ساتھ کیا،جن کو پرویزمشرف نے اپنے اقتداراور اختیارات کے نشے میں چور ہو کر معطل اور محبوس کررکھا تھا۔ستمبر2008ء میں جب آصف علی زرداری نے جب صدارتی انتخاب میں شاندارکامیابی حاصل کی تو اس کو قومی اور بین الاقوامی سیاسی حلقوں میں اس اعتبار سے بجا طور پر سراہا گیا کہ صدارتی انتخاب سے پہلے صوبائی اسمبلیوں میں آصف علی زرداری کے حق میں قراردادیں منظورکیں۔صدر زرداری نے ایوانِ صدر پہنچنے کے لیے بلاشبہ ایک ایسا طویل سفر طے کیا جس کے دوران ان کو ایثار،قربانی،عفوودرگزر اور فراخ دلی سے کام لینا پڑا۔وہ ذہنی اور فکری طور پر محترمہ شہید کے اس قول پر بے پناہ اعتماد اور یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔اس کا عملی مظاہرہ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ اپنے حسنِ سلوک کے ساتھ کیا۔مسلم لیگ(ن)ابتداء میں اتحادی حکومت میں شامل تھی لیکن بعدازاں اُس نے اپنا راستہ تبدیل کرنے کو ترجیح دی لیکن آصف علی زرداری نے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ تعاون اور باہمی اعتماد کے جذبات کو فروغ دیا۔اس حوالے سے حقائق اورواقعات کی فہرست بہت طویل ہے تاہم یہ نشاندہی کافی ہے کہ حال ہی میں خود میاں شہبازشریف نے برملا اعتراف کیا ہے کہ ایک مرحلے پر آصف علی زرداری نے اُن کو وزارتِ عُظمیٰ کا قلم دان سنبھالنے کی دعوت دی تھی۔
اتحادی حکومت نے اپنی پانچ سال کی آئینی مدت کے تقریباً ساڑھے چار سال مکمل کرلئے ہیں۔اب بھی اس کو ایم کیو ایم ،مسلم لیگ(ق)،اے این پی،فاٹا کے اراکین،مسلم لیگ (فنکشنل) اور دیگر سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل ہے۔اتحادی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں اگرچہ اپوزیشن کے اپنے تحفظات ہیں(جوبہرحال اس کا جمہوری حق ہے)لیکن رائے عامہ کا معروضی تجزیہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ عوام کو اپنی منتخب جمہوری حکومت کی کارکردگی پر بڑی حد تک اعتماد اور بھروسہ ہے۔اسی باعث سیاسی مبصرین اس خیال کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر عوام کی نمائندہ جماعت بن کر ابھرے گی۔چند روز قبل خود صدر آصف علی زرداری نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی آئندہ الیکشن میں اپنے اتحادیوں سمیت بھرپور حصہ لے گی۔
صدر مملکت کی حیثیت سے آصف علی زرداری کی کارکردگی اس اعتبار سے نہایت ثمربار اور ہمہ پہلو ہے کہ اس کے اثرات وطن عزیز کے مستقبل پر مرتب ہوں گے۔انہوں نے 1973ء کے متفقہ آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کرنے کے لیے کلیدی اوراساسی کردارادا کیا۔انہوں نے اپنے اختیارات وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو منتقل کئے،قومی معیشیت اور سلامتی کی بہتری کے لئے امریکہ، چین،ایران،ترکی،افغانستان،برطانیہ اور دیگر ممالک کے دورے کئے۔اُن کی کوششوں سے ”فرینڈزآف ڈیموکریٹ پاکستان“ کا فورم تشکیل پایا جو پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے بجاطور پر معاون ثابت ہوگا۔پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور خطے میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے بھی صدر زرداری نے سرگرم کرداراداکیا۔حال ہی میں تہران میں ہونے والی غیر وابستہ ممالک کی تنظیم ”نام“ کے سربراہ اجلاس کے موقع پر انہوں نے متعدد غیر ملکی زعماء کے ملاقاتیں کیں جن میں بھارت کے وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ بھی شامل تھے۔مبصرین کا خیال ہے کہ یہ ملاقات دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری لانے کا موجب ثابت ہوگی۔
اتحادی حکومت نے ساڑھے چار سال کی مدت میں جوسنگِ میل کامیابی سے عبور کئے ان میں آئینی اصلاحات،حقوقِ نسواں،شفاف الیکشن کے لئے اقدامات،زلزلہ اور سیلاب کے متاثرین کی بروقت امداد،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ،بے نظیر ایمپلائیز سٹاک آپشن سکیم،آغاز حقوقِ بلوچستان،گلگت بلتستان کو داخلی خودمختاری،متفقہ قومی مالیاتی ایوارڈ،دہشت گردی کے خلاف نتیجہ خیز جنگ،پختون عوام کو ان کے صوبے کی الگ شناخت، زرعی شعبے اور اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے مراعات نہایت قابل ذکر ہیں۔حال ہی میں قومی اسمبلی کی سپیکر نے ایک پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا ہے جو نئے صوبوں کی تشکیل اور قیام کے باب میں عملی اقدامات کرے گا۔یہ کمیشن تشکیل دینے کا اعلان صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ سال قومی اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران کیاتھا۔
صدر آصف علی زرداری بے شمار مرتبہ اپنے اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ پاکستان کو قائدِاعظم محمد علی جناح،شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خوابوں کی تعبیر کے مطابق ایک اعتدال پسند اسلامی ،پرامن،ترقی پسند،جمہوری اور خوشحال ریاست بنانے کے متمنی ہیں۔اب جبکہ وہ اپنے دورِ صدارت کے چار سال مکمل کررہے ہیں،تو عوام اُن کی کامیابی کے لیے تہہ دل سے دعاگو ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Islamabad roads